پاکستان میں کورونا وائرس ختم
تحریر: احمد زعیم

ہمارے شہریوں میں شعور کی کمی نہ ہوتی تو اس بات کی قدر 


کرتے کہ احتیاط ہمیشہ پچھتاوے سے بہتر ہوتی ہے۔ ہم نے کبھی 



انفرادی سطح پہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان موجودہ حالات 



میں انفرادی سطح پر صرف ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش سے 



گھروں میں بیٹھ کر ہم مکمل لاک ڈاؤن کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ 



وگرنہ کب تک ہم دو ہزار ارب ڈالر کے امریکی پیکج پر گزارا 



کریں گے؟ کیسے ہم ایک طویل عرصے کیلئے اپنا پورا کاروبار بند رکھ 



سکیں گے؟ بارہ ہزار کے کورونا ریلیف فنڈ سے آخر کب تک ایک 



خاندان اپنا گزر بسر ممکن بنا سکے گا؟ سفید پوش لوگوں کو کیسے 



مرنے سے بچا سکیں گے؟ کورونا وائرس کے پھیلنے پر کیے جانے 



والے لاک ڈاؤن کے بعد پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ایسے کئی 



سوالات جنم لے رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر 



ایمرجنسی ڈاکٹر مارک ریان نے اپنے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ 



شاید کورونا وائرس اب کبھی ختم نہ ہو۔ ایچ آئی وی کے بعد کورونا 



وائرس کا خاتمہ بھی اب کسی مؤثر ویکسین پر منحصر ہے۔ کیونکہ 



جب تک اس وائرس سے نبردآزما ہونے کیلئے کوئی ویکسین تیار 



نہیں ہو جاتی، اس وقت تک یہ کنٹرول میں نہیں لایا جاسکتا۔ ڈبلیو 



ایچ او کے مطابق ویکسین کے تیار ہو جانے کے بعد بھی اس پر 



قابو پانے کیلئے از حد کوشش چاہیے ہوگی۔ کورونا وائرس جس کے 



پھیلاؤ نے نہ صرف امریکہ اور چین جیسی مضبوط معاشی طاقتوں کو 



کشمکش میں ڈال دیا بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو بھی 



کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب تک 



کم و بیش 15 کروڑ پاکستانی بے حد متاثر ہوچکے ہیں۔


مگر پاکستانی عوام کیلئے ایک خوشخبری ہے۔ حکومت پاکستان نے 



عوام کے وسیع تر مفاد میں ڈبلیو ایچ او کے کورونا وائرس کے کبھی 



نہ ختم ہونے کے بیان کی نفی کر دی۔ کورونا وائرس اب پاکستان 



میں ختم ہو چکا ہے۔ وہی کورونا وائرس جسے دوسرے متاثرہ ممالک 


کی طرح پاکستان میں بھی مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے صوبائی 

حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا اطلاق کیا تھا۔ گھروں پر رہنے اور 

سماجی فاصلوں کے احکامات پر عمل درآمد کی خاطر بہت سے اہم 

اقدامات بھی اٹھائے۔ لیکن اب عمران خان کی بے باک قیادت 

میں اس لاک ڈاؤن میں نرمی کر کے کورونا وائرس کے ختم 

ہوجانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ کورونا کے خاتمے کا یہ انکشاف تب 

ہوا جب حکومت پاکستان نے ہفتے کے چند دنوں میں لاک ڈاؤن 

میں مکمل نرمی برتنے کا اعلان کیا۔ اور 15 جولائی تک تمام تعلیمی 

ادارے کھولنے کا کہا۔ ساتھ ہی عوام الناس کی فلاح کیلئے پبلک 

ٹرانسپورٹ بھی کھول دی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے جو ایس او پیز 

تیار کیے گئے ان کا اطلاق صرف بڑی بسوں پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ 

لیکن جب عام ٹرانسپورٹ پر وہ قواعد و ضوابط لاگو کروائے جائیں 

گے تو معلوم پڑے گا کہ وہاں تو لوگ آمنے سامنے بیٹھے ایک 

دوسرے کی سانسوں تک کی گنتی بھی باآسانی کر سکتے ہیں۔


اس سب کے ساتھ حکومت پاکستان نے عالمی ادارہ صحت کی اس 

رپورٹ کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ اگر پاکستان میں کورونا کو پھیلنے 

سے روکنے کیلئے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو جولائی کے وسط تک 

ملک میں مریضوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ جس کا 

عملی ثبوت سندھ حکومت کی اجازت کے بعد یوم علی کی مناسبت 

سے کراچی میں عزاداروں کی بڑی تعداد میں نکالا گیا جلوس ہے۔ 

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جہنوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس 

میں ہاتھ جوڑ کر شہریوں سے مساجد میں نہ جانے کی پرزور اپیل 

کی تھی۔ اب انہوں نے باقاعدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ جلوس 

کے نکالنے کی اجازت دی۔ ساتھ ہی حکومت کی جانب سے جمعہ 

اور رمضان المبارک میں تراویح اور اعتکاف کے حوالے سے 

احتیاطی تدابیر کے طور پر نمازیوں کی تعداد کم رکھنے کا فیصلہ کیا 

گیا تھا۔ مگر ارطغرل غازی کے سپاہیوں کا ان اقدامات کو روندنا 

اور حکومت کا خاموش تماشائی بنے رہنا بھی اس بات کی گواہی ہیں 

کہ پاکستان میں اب کورونا وائرس کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔ یہ 


تو ہمارا دستور ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات 



میں حکومت نے ہمیشہ جذباتی عوام کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں۔ چاہے 



وہ یوم علی پر جلوس نکالنے، مساجد میں نماز جمعہ نہ پڑھنے یا 



قادیانی عاطف میاں کو نکالنے کے جیسے معاملات ہوں۔ یہ واقعات 



اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے ہاں مذہب کو اب ایک دھمکی بنا 



دیا گیا ہے۔ اور ایک دفعہ پھر یہ دھمکی پاکستانیوں کے کام آگئی۔ 



اب تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید کورونا وائرس کو پاکستان میں 



دوبارہ سر اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہو۔
Share To:

urdunewspoint

Post A Comment:

0 comments so far,add yours