ڈاکٹر وزیر آغا کی رہائش گاہ جو 1958 میں تیار ہوئی یہاں غیر ملکی اور غیر ملکی ادباء اور شاعر گلوکار اور موسیقار اور دانشور اور زندگی کے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد آتے رہے گودار رائٹرز کلب کے اجلاس ہوتے رہے سرگودھا اکادمی کے اجلاس ہوتے رہے وزیر آغا کی شام دوستاں آباد  محفلیں سجتی

ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر سلیم آغا کی وفات کے بعد یہ سننے میں آرہا ہے یہ کوٹھی جلد فروخت کر دی جائے گی بلکہ اس کو ایک طرف سے منہدم کرنے کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے




اس کوٹھی میں لگے درختوں کو الگ سے فروخت کر دیا گیا ہے ٹھیکیدار درختوں کو الگ سے کاٹ کر ٹرالیوں میں  لے جا رہے ہیں اس وقت مجھے مجید امجد نظم کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے چھتنار کتنا قیمتی اثاثہ تھا جو بہت جلد ختم ہوجائے گا
Share To:

urdunewspoint

Post A Comment:

0 comments so far,add yours