Top News

احمد زعیم

جنت نظیر وادئِ کشمیر ایک عظیم ریاست اپنی دلکشی کے لیے مقبول نظر ہے۔ اس کی سرحد پاکستان سے سات سو کلومیٹر تک ملی ہوئی ہے۔ پاکستان اور کشمیر کے درمیان یہ تعلق نہ صرف سرحدی بلکہ مذہبی اور معاشرتی لحاظ سے بھی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ پاکستان کے چاروں دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔ بڑے سے بڑے لکھاری یا ادیب بھی وادئِ کشمیر کو دنیا کی جنت لکھے بغیر نہیں رہ سکے۔ اور بلاشبہ کشمیر جنت کا استعارہ ہے۔ دل کو موہ دینے والے وادی کے دلکش اور روح افزاء مناظر دیکھ کے یوں لگتا ہے کہ جیسے اللّہ تعالٰی نے بہشت بریں کو اتار کے پہاڑ کے دامن میں رکھ دیا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے یہ وادی اور اس کے باسی غلامی کی سانس لے رہے ہیں۔

قانونِ ہند کی رو سے برصغیر کی ریاستوں کو حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کر لیں۔ تقسیمِ ہند کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی والے علاقے پاکستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گورداسپور کا علاقہ بھی پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے بد دیانتی کرتے ہوئے نقشے میں تبدیلی کر کے گورداسپور کا علاقہ بھارت میں شامل کر دیا۔ اور ان کو کشمیر تک براہِ راست رسائی دے دی۔ تقسیمِ ہند کے وقت کشمیر میں مسلم اکثریت 85 فیصد سے زائد تھی۔ جس کا واضح مطلب کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق تھا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کے گٹھ جوڑ نے ریاست کی اکثریت کی خواہش کو روند دیا۔

اس خوبصورت وادی کو انگریزوں نے صرف 75 لاکھ کے عوض گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کر دیا تھا۔ ڈوگرہ فوج کشمیر میں داخل ہو گئی۔ اس کے بعد یہ وادی ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی میں آگئی۔ ریاست کا سربراہ راجہ ڈوگرہ ہندو تھا۔ اُس نے مسلمانوں پر بے پناہ ظلم روا رکھا۔ اس ظلم و بربریت سے تنگ آ کر کشمیری مسلمانوں نے مل کر بغاوت کی۔ اس بغاوت کا نتیجہ 13 جولائی 1931 ء کو سری نگر کی جیل کے سامنے اکتیس بے گناہ کشمیریوں کے قتل کی صورت میں نکلا۔ اس درندگی میں پانچ لاکھ مسلمان شہید ہوئے جبکہ کم و بیش پندرہ لاکھ مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ یہی بغاوت تحریکِ آزادئِ کشمیر کی صورت اختیار کر گئی۔ کشمیریوں کی مدد کے لئے قبائلی مجاہدین نے ریاست میں داخل ہو کر کشمیر کا کافی حصہ آزاد کروا لیا۔

مقبوضہ کشمیر سے کئی نوجوانوں نے ظلم و بربریت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جن میں برہان وانی سرِ فہرست ہے۔ برہان وانی مظلوم کشمیریوں کی آواز بنا اور اس نے ہندوستانی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس جدوجہد کے دوران اسے شہید کر دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورم پر اجاگر کیا گیا۔ مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل پایا۔ بھارت اس مسئلے پر کسی صورت بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

آج تک کشمیری مسلمان غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ آج بھی جب لبوں پہ کشمیر کا نام آتا ہے، اشک تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ کسی مظلوم کشمیری کا نام آتے ہی ہماری آنکھوں میں کے سامنے کشمیری بھائیوں کی تشدد اور سفّاکی سے بھرپور لاشیں آ جاتی ہیں۔ ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری کے دل دہلا دینے والے مناظر نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے اشک ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیوں ہماری وادی کشمیر آج بھی جل رہی ہے۔

ہر سال پانچ فروری کو ہم یومِ کشمیر تو مناتے ہیں مگر کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ کشمیر کو آج تک اِس نوبت پہ کس نے پہنچایا ہے۔ صرف دکھلاوے کے خاطر ہم صرف ایک مخصوص روز کشمیریوں سے ہمدردی کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ مگر حقیقتاً ان کی عملی مدد نہ کر کے ہم خود ان کو روز قتل کرتے ہیں۔ کئی سالوں سے یہ سوال آج بھی حل طلب ہے کہ آخر کب تک یہ سفاکی چلے گی؟




محبت ایک بہت ہی مضبوط اور خوبصورت جذبہ ہے۔ محبت ایک زبردست طاقت کا منبع ہونے کا ساتھ خوشی اور نقصان کا بھی باعث ہے۔ محبت ایک خاص جذبہ ہوتا ہے جو کہ صرف خاص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ محبت قربانیاں مانگتی ہے، کبھی روح کی، کبھی جان کی اور کبھی خواہشات کی۔ ہر سال 14 فروری کو ”ویلنٹائن ڈے“ کے نام سے محبت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی ابتداء 279 عیسوی کو ہوئی۔

اس دن کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے ہوا۔ سینٹ ویلنٹائن کو مذہب تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ قید کے دوران ہی اسے جیلر کی بیٹی سے عشق ہو گیا۔ جیلر کی بیٹی روز اس کے لئے پھول لاتی۔ جب بادشاہ کو یہ ماجرا پتا چلا تو اس نے ویلنٹائن کو پھانسی کی سزا دینے کا حکم سنا دیا۔ ویلنٹائن نے پھانسی پر چڑھنے سے پہلے جیلر کی بیٹی کو الوداعی خط لکھا۔ جس پر اس نے دستخط سے پہلے لکھا تھا، ”تمہارا ویلنٹائن“۔ اسی واقعہ کی یاد میں آج بھی یہ دن منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کو اگر اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ اسلام اس قسم کے تہوار منانے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ یہ تہوار اسلامی روایات کے خلاف ہے۔ یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ ہم ”مسلمان“ تو بڑے محبت کرنے اور بانٹنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارا مذہب ”اسلام“ بھی تو امن و محبت کا دین ہے۔ تو پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ اہلِ اسلام ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسلام کے پیروکار اسے محبت کا عالمی دن نہیں مانتے۔

اہلِ اسلام کہتے ہیں کہ ہم محبت کا دن منانے میں حائل دیوار نہیں ہیں بلکہ اس دن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے اس کے خلاف ہیں۔ اسلام کبھی بھی کسی کے جذبات کچلنے کا حکم نہیں دیتا۔ اور جذبات کی تسکین کے لئے اسلام نے ایک راستہ بتایا ہے اور وہ ہے نکاح۔ اور ایسی تفریح جو انسان کو اللّٰہ کے ذکر سے غافل کر دے، اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا۔

پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی میں ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ اب یہ دن نہ صرف شہروں بلکہ چھوٹے بڑے تمام قصبوں میں بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ پھولوں کی قیمتوں اور فروخت میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ روشن خیالی سے متاثر نوجوان کہتے ہیں کہ ایسی تفریح ہونی چاہیے اور جذبات کی قدر ہونی چاہیے۔ بہت سے موسمی عاشق 14 فروری کو منظرِ عام پر آتے ہیں۔ لیکن نوجوان نسل کے جذبات کو ٹھیس اُس وقت پہنچی جب جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگا دی۔

اور اعلامیہ جاری کر دیا کہ 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کی بجائے سسٹرز ڈے یعنی بہنوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اور اس دن طالبات میں یونیورسٹی کے نام والے برقعے، شال اور اسکارف بانٹے جائیں گے اور انہیں ساتھی لڑکوں کی بہنیں بنایا جائے گا۔ اس سے قبل ہمارا محکمہ زراعت کچھ ایسی ہی عجیب وجوہات کی وجہ سے کافی زیادہ خبروں میں رہا جن کو شائع نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس مرتبہ یہ مقبولیت زرعی یونورسٹی کے حصے میں آئی۔

سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے متعلق مختلف عوامی حلقوں کی جانب سے تنقید و تعریف کا سلسہ جاری ہے۔ ۔ تحریکِ انصاف کے جیالوں کا کہنا ہے کہ یہ احسن اقدام صرف عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اگر لڑکیوں کو اسکارف اور شال وغیرہ تحفے میں دیے جائیں گے تو لڑکوں کو بھی تسبیح اور ٹوپی دی جانی چاہیے۔ حیاء ڈے اور سسٹرز ڈے جیسی رکاوٹوں نے تو جیسے نئے نویلے عاشقوں کی عاشقی کے سارے دروازے ہی بند کر دیے ہوں۔

اس فیصلے نے تو اب 14 فروری کو جامعات میں طلبہ کی تعداد کم ہی دِکھنے کے امید ظاہر کر دی ہے۔ موسمی عاشقوں کو ابھی محبت کیے جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے ہوں لیکن ”یومِ ہمشیرہ“ منانے کے اس فیصلے نے ان کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ ابھی تو ان جوانوں نے اور محبت کرنا تھی لیکن بدقسمتی کہ دن ہی کم تھے محبت میں فروری کی طرح۔


 Khushab is a mix of two Persian words "Khush" which means sweet or delectable and "aab" which means water. A typical conviction is that the Persain intruders, from the west, first utilized "Khush-aab" in reverence of the sweet and delicious water found in the chronicled city arranged on the bank of Jehlum River. With time the city began to be known as Khushab. It is extremely fascinating thing that by and by Khushab is celebrated because of its high flying sweet "dhoda". 



"Khushab" is a recorded city of Pakistan. Presently Khushab is a District of Punjab, arranged among Sargodha and Mianwali, close to stream Jhelum. Its Calling Code is 0454. Time Region is PST (UTC+5). Khushab claims mountains, deserts, rich green gathering area, lakes and stream. Khushab isn't just wealthy in characteristic assets (salt and coal) and so forth. Khushab is place that is known for profound characters who change the individuals of Khushab. Soil of Khushab has been honored with otherworldly characters like "Hazrat Badshahan Sahiban (R.A.), Hazrat Molana Muhammad Ismail (R.A) and Hazrat Molana Basheer Ahmad (R.A.) and so forth. 



Individuals of Khushab are exceptionally persevering and a large portion of them are related with cultivating and horticulture. Khushab is likewise known for its tasty desserts uniquely "DHODA" and "PATEESA". Weighty Vehicles (Trucks) body-producers of Khushab are renowned in everywhere on over the nation. 



Neighbor significant urban areas are Sargodha, Mianwali, Bhakher, Jhelum, Chakwal, Jhang. "Aqueduct e-Soon" is one of the most delightful slope stations of Pakistan.




There are three excellent lakes (Ochali, Khabbaki, Sodhi Jay Wali) and a wonderful Garden called Kanhatti Garden close Khabbaki town. Here is a greatest backwoods in Soon Valley territory.


  


 پاکستان میں کورونا وائرس ختم
تحریر: احمد زعیم

ہمارے شہریوں میں شعور کی کمی نہ ہوتی تو اس بات کی قدر 


کرتے کہ احتیاط ہمیشہ پچھتاوے سے بہتر ہوتی ہے۔ ہم نے کبھی 



انفرادی سطح پہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان موجودہ حالات 



میں انفرادی سطح پر صرف ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش سے 



گھروں میں بیٹھ کر ہم مکمل لاک ڈاؤن کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ 



وگرنہ کب تک ہم دو ہزار ارب ڈالر کے امریکی پیکج پر گزارا 



کریں گے؟ کیسے ہم ایک طویل عرصے کیلئے اپنا پورا کاروبار بند رکھ 



سکیں گے؟ بارہ ہزار کے کورونا ریلیف فنڈ سے آخر کب تک ایک 



خاندان اپنا گزر بسر ممکن بنا سکے گا؟ سفید پوش لوگوں کو کیسے 



مرنے سے بچا سکیں گے؟ کورونا وائرس کے پھیلنے پر کیے جانے 



والے لاک ڈاؤن کے بعد پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ایسے کئی 



سوالات جنم لے رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر 



ایمرجنسی ڈاکٹر مارک ریان نے اپنے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ 



شاید کورونا وائرس اب کبھی ختم نہ ہو۔ ایچ آئی وی کے بعد کورونا 



وائرس کا خاتمہ بھی اب کسی مؤثر ویکسین پر منحصر ہے۔ کیونکہ 



جب تک اس وائرس سے نبردآزما ہونے کیلئے کوئی ویکسین تیار 



نہیں ہو جاتی، اس وقت تک یہ کنٹرول میں نہیں لایا جاسکتا۔ ڈبلیو 



ایچ او کے مطابق ویکسین کے تیار ہو جانے کے بعد بھی اس پر 



قابو پانے کیلئے از حد کوشش چاہیے ہوگی۔ کورونا وائرس جس کے 



پھیلاؤ نے نہ صرف امریکہ اور چین جیسی مضبوط معاشی طاقتوں کو 



کشمکش میں ڈال دیا بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو بھی 



کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب تک 



کم و بیش 15 کروڑ پاکستانی بے حد متاثر ہوچکے ہیں۔


مگر پاکستانی عوام کیلئے ایک خوشخبری ہے۔ حکومت پاکستان نے 



عوام کے وسیع تر مفاد میں ڈبلیو ایچ او کے کورونا وائرس کے کبھی 



نہ ختم ہونے کے بیان کی نفی کر دی۔ کورونا وائرس اب پاکستان 



میں ختم ہو چکا ہے۔ وہی کورونا وائرس جسے دوسرے متاثرہ ممالک 


کی طرح پاکستان میں بھی مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے صوبائی 

حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا اطلاق کیا تھا۔ گھروں پر رہنے اور 

سماجی فاصلوں کے احکامات پر عمل درآمد کی خاطر بہت سے اہم 

اقدامات بھی اٹھائے۔ لیکن اب عمران خان کی بے باک قیادت 

میں اس لاک ڈاؤن میں نرمی کر کے کورونا وائرس کے ختم 

ہوجانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ کورونا کے خاتمے کا یہ انکشاف تب 

ہوا جب حکومت پاکستان نے ہفتے کے چند دنوں میں لاک ڈاؤن 

میں مکمل نرمی برتنے کا اعلان کیا۔ اور 15 جولائی تک تمام تعلیمی 

ادارے کھولنے کا کہا۔ ساتھ ہی عوام الناس کی فلاح کیلئے پبلک 

ٹرانسپورٹ بھی کھول دی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے جو ایس او پیز 

تیار کیے گئے ان کا اطلاق صرف بڑی بسوں پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ 

لیکن جب عام ٹرانسپورٹ پر وہ قواعد و ضوابط لاگو کروائے جائیں 

گے تو معلوم پڑے گا کہ وہاں تو لوگ آمنے سامنے بیٹھے ایک 

دوسرے کی سانسوں تک کی گنتی بھی باآسانی کر سکتے ہیں۔


اس سب کے ساتھ حکومت پاکستان نے عالمی ادارہ صحت کی اس 

رپورٹ کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ اگر پاکستان میں کورونا کو پھیلنے 

سے روکنے کیلئے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو جولائی کے وسط تک 

ملک میں مریضوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ جس کا 

عملی ثبوت سندھ حکومت کی اجازت کے بعد یوم علی کی مناسبت 

سے کراچی میں عزاداروں کی بڑی تعداد میں نکالا گیا جلوس ہے۔ 

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جہنوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس 

میں ہاتھ جوڑ کر شہریوں سے مساجد میں نہ جانے کی پرزور اپیل 

کی تھی۔ اب انہوں نے باقاعدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ جلوس 

کے نکالنے کی اجازت دی۔ ساتھ ہی حکومت کی جانب سے جمعہ 

اور رمضان المبارک میں تراویح اور اعتکاف کے حوالے سے 

احتیاطی تدابیر کے طور پر نمازیوں کی تعداد کم رکھنے کا فیصلہ کیا 

گیا تھا۔ مگر ارطغرل غازی کے سپاہیوں کا ان اقدامات کو روندنا 

اور حکومت کا خاموش تماشائی بنے رہنا بھی اس بات کی گواہی ہیں 

کہ پاکستان میں اب کورونا وائرس کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔ یہ 


تو ہمارا دستور ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات 



میں حکومت نے ہمیشہ جذباتی عوام کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں۔ چاہے 



وہ یوم علی پر جلوس نکالنے، مساجد میں نماز جمعہ نہ پڑھنے یا 



قادیانی عاطف میاں کو نکالنے کے جیسے معاملات ہوں۔ یہ واقعات 



اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے ہاں مذہب کو اب ایک دھمکی بنا 



دیا گیا ہے۔ اور ایک دفعہ پھر یہ دھمکی پاکستانیوں کے کام آگئی۔ 



اب تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید کورونا وائرس کو پاکستان میں 



دوبارہ سر اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہو۔

ad