’’میرے ساتھ ایسے واقعات 2012 سے ہو رہے ہیں جب پاکستان سائبر فورس نام کے فیس بک اکاؤنٹ نے میرے گھر والوں کا نام، میری ساری نجی معلومات فیس بک پر ڈال دی تھیں اور اور شوٹ ایٹ سائٹ کا مطالبہ لکھ دیا‘‘
واشنگٹن —
سینئیر صحافی اور معروف اینکر عاصمہ شیرازی نے 12 جولائی کی صبح ٹویٹ کی کہ انہوں نے 11 جولائی کو لندن سے نکلنے سے ایک رات پہلے نواز شریف کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے اپنے مستقبل کا پلان بتایا مگر بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ انٹرویو نشر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد صحافی عاصمہ شیرازی کو مسلسل آن لائن ٹرولنگ کا سامنا ہے۔
انٹرنیٹ پر مسلسل ٹرولنگ کے بعد بہت سے سماجی کارکن، صحافی اور تجزیہ نگار مسلسل عاصمہ شیرازی سے ٹویٹر پر یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں، یہاں تک کہ معروف معروف انڈین صحافی شیکھر گپتا نے لکھا کہ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ صرف ہندوستان میں سوشل میڈیا غیر روایتی صحافیوں کو مطعون کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ دیکھئے کہ کیسے نڈر اور معروف پاکستانی نیوز اینکر عاصمہ شیرازی کو ٹویٹر پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ جب سنسرشپ کی وجہ سے ان کا انٹرویو نہ چل سکا۔
ڈیجیٹل رائٹس آف پاکستان کی بانی نگہت داد نے ٹویٹ کیا کہ ان کا ادارہ عاصمہ شیرازی کو ملنے والی آن لائن ریپ اور قتل کی دھمکیوں کی مذمت کرتا ہے۔ ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ خاتون صحافیوں کو ایسے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے ارم عباسی، ماروی سرمد اور صبا اعتزاز کو بھی ایسی ہی آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ڈجیٹل رائٹس آف پاکستان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ صحافیوں کو محفوظ ماحول کی ضمانت ملنی چاہئے تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کی ہر حال میں حفاظت لازمی ہونی چاہئے۔
وائس آف امریکا نے آن لائین ٹرولنگ کی شکار ہونے والی ماروی سرمد اور صبا اعتزاز سے اس بارے میں گفتگو کی۔
اس سوال کے جواب میں کہ انہیں کس قسم کی آن لائین ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا ماروی سرمد کہتی ہیں کہ آن لائین ہراسمنٹ میں سلٹ شیمنگ یعنی کردار پر الزامات لگانا، جسمانی ساخت پر بھپتیاں کسنا، ریپ اور قتل کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ میرے ساتھ ایسے واقعات 2012 سے ہو رہے ہیں جب پاکستان سائبر فورس نام کے فیس بک اکاؤنٹ نے میرے گھر والوں کا نام، میری ساری نجی معلومات فیس بک پر ڈال دی تھیں اور اور شوٹ ایٹ سائٹ کا مطالبہ لکھ دیا۔ پہلے تو ہم نے اسے زیادہ سنجیدہ نہ لیا مگر 2012 میں میری گاڑی پر گولیاں چلائی گئیں۔ جس کے بعد ہمیں محتاط ہونا پڑا۔
صبا اعتزاز کہتی ہیں کہ خواتین جرنلسٹس کے خلاف بہت زیادہ گری ہوئی زبان استعمال کی جاتی ہے، ان پر ان کے پیشے کی نسبت سے تنقید کرنے کی بجائے ان کی جنس پر حملہ کیا جاتا ہے، شدید جنسی اشارے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن سے متعلق گالیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے کردار پر، ان کے فرقے پر ایسے حملے کئے جاتے ہیں جن سے وکٹم نفسیاتی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ہم صحافی چونکہ خوف دلانے سے نہیں گھبراتے تو شرم کا استعمال کیا جاتا ہے۔
’آن لائین ہراسمنٹ‘ کا کیا اثر ہوتا ہے کے جواب میں ماروی کا کہنا تھا کہ اس کا شدید نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ جب آپ کی ہر بات کو جنسی طور پر ذومعنی باتوں میں ڈھال لیا جائے، ہر بات کے جواب میں ریپ کی دھمکیاں دی جائیں، آپ کو اینٹی اسلام، اینٹی پاکستان، بکاؤ اور کیا کچھ نہ کہا جائے تو ایسے میں ایک خاتون ہوتے ہوئے آپ کو ہر بات کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کیوں کہ آپ کے گھر والے، دوست، عزیز، آپ کے بچے، ان کے دوست، آپ کا سارا سوشل سرکل آپ کے ساتھ ایسے برتاؤ کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کا اثر لے رہا ہوتا ہے۔
صبا اعتزاز کہتی ہیں کہ اس ٹرولنگ سے متاثرہ فرد پر ایسا ہی نفسیاتی اثر پڑتا ہے جیسے فیلڈ میں PTSD سے پڑتا ہے۔ لوگ خاموش ہوجانے یا اپنے آپ کو سنسر کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں مگر چونکہ ہمارا کام اب ایسا ہے کہ ہمیں مسلسل سوشل میڈیا استعمال کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم مسلسل نشانے پر ہیں اور غیر محفوط ہیں۔ مجھے یہ سوچنا پڑتا تھا کہ میں اب جو لکھنے لگی ہوں اس کا کیا ردعمل ہوگا۔
ماروی سرمد بھی کہتی ہیں کہ ایسی ٹرولنگ سے فرد کے آزادی اظہار کا حق چھن جاتا ہے۔ آپ ہر بات کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ کسی ہندی فلم پر بھی تبصرہ کیا جائے تو اسے نیشنل سیکیورٹی کا ایشو بنا لیا جاتا ہے۔
صبا اعتزاز سے وائس آف امریکا نے جب یہ پوچھا کہ ایسی ٹرولنگ کے پیچھے کون لوگ ہیں اور ان کا طریقہ کار کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس کے سپیشل ٹرولنگ یونٹس ہیں۔ یہ منظم طور پر توہین ہوتی ہے اور زیادہ تر یہ پی ٹی آئی سے متعلقہ اکاونٹس اور ایسے اکاؤنٹس سے ہوتا ہے جو خود کو دفاعی اداروں کے محافظ کہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اکاؤنٹس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک بار یہ کسی خاتون کے خلاف لوگوں کے جزبات بھڑکائیں گے، ان کی جنس اور ان کے فرقے، جیسا کہ میرے کیس میں ہوا، سے متعلق حملے کریں گے تو دائیں بازو سے متعلق شدت پسند اکاؤنٹ بھی اس خاتون پر حملے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس بات کے جواب پر کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اس پر کیسا ردعمل ہوتا ہے، ماروی سرمد کہتی ہیں کہ مجھے تو اب ان سے کوئی بھی امید باقی نہیں ہے۔ شروع شروع میں رحمٰن ملک صاحب نے امید دلائی تھی مگر زیادہ سے زیادہ ایسے پیجز بند ہوتے ہیں اور وہ بھی پراکسی پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
جب کہ صبا اعتزاز کا مؤقف تھا کہ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا نہ ہی سائبر کرائم بل سے اس سائبر ٹرولنگ کی روک تھام میں کوئی مدد ملی ہے۔ صبا اعتزاز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسے قوانین صحافیوں اور سماجی کارکنان کی مدد کے بجائے ان کی آواز بند کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours